#جہیز_نہیں_وراثت قسط نمبر 5

#جہیز_نہیں_وراثت
(قسط 5)

کسی جاننے والے کی بیٹی کا رشتہ پکا ہوا، لڑکے کی والدہ کہنے لگیں اگر آپ کو اعتراض نا ہو تو ہمیں شادی جلدی چاہیے،،، لڑکی کے والدین نے کہا ہم اتنے کم عرصے میں تیاری کیسے کریں گے، بہت سے معاملات ہیں
سامان، فرنیچر، لین دین وغیرہ، ہمیں تھوڑا وقت چاہیے
لڑکے کی والدہ نے کہا ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے،
آپ چاہیں تو دو جوڑوں میں بیٹی کو رخصت کریں،
ہمیں قبول ہے
لڑکی کے والدین بڑے متاثر ہوئے اور رضامندی ظاہر کرتے ہوئے نکاح کی تاریخ فائنل کر لی
مقررہ تاریخ پر نکاح ہوا
بیٹی گھر سے رخصت ہوئی
رخصتی کے کچھ دن بعد ساس، سسر، نند اور شوہر کے مزاج بدلنے لگے
باتوں باتوں میں جتایا جانے لگا کہ لڑکی کی والدین نے جہیز اور دنیا داری کی دیگر فضول رسمیں نا نبھا کر کتنی بڑی بیوقوفی کی
ساس اپنی سہیلیوں کے سامنے بتانے لگی یہ بہو جہیز یا تحائف کے نام پر کوئی سامان ساتھ نہیں لائیں
بیٹی کو مینٹلی ٹارچر کیا جانے لگا
پھر شوہر سے کسی بات پر ان بن ہوئی تو بیوی کو مار پیٹ کر اس کے گھر بھیج دیا
اور شرط رکھی بیوی کے لینے تب ہی آئے گا جب لڑکی کے والدین جہیز کا سامان اور نقدی دے کر بھیجے گے
لڑکی کے والدین نے لڑکے کے والدین کو بلایا
اور ان سے استفسار کیا کہ آپ ہی نے خود کہا تھا کہ آپ کو نکاح جلدی چاہیے اور سامان کی ضرورت نہیں تو اب بیٹی کو ٹارچر کیوں کر رہے ہیں
لڑکے کی والدہ نے کہا ہم نے آپ سے اخلاقا کہا تھا
اور آپ نے ہماری اسی بات کو زہن میں بٹھا لیا،،،،
خیر نتیجہ یہ نکلا کہ والدین نے بیٹی پر ٹارچر کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں مزید کسی ایسے حادثے سے بچنے کے لیے لالچی گھرانے سے بیٹی کی خلاصی کروائی اور خلع دلوائی۔۔۔۔
دیکھا جائے تو فتنوں کے اس دور میں جہاں کلمہ گو مسلمان بھی مشر کین کی رسومات کو اسلام کا حصہ سمجھے بیٹھے ہیں، انہیں سمجھانا مشکل ترین کام ہے
اور پھر ان رسموں کی مخالفت کرنا بھی بڑے جگرے کا کام ہے
آپ مخالفت کریں گے تو آپ کے اپنے ہی ساتھ دینے کے بجائے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا ہی کسی سے سن رہا تھا کہ بیٹی کی بات پکی ہوئی تو لڑکے والے کہنے لگے
ویسے تو ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے
پر آپ نے جو دینا ہے
اپنی بیٹی کو دینا ہے
جو آپ دیں گے وہی اسے استعمال کرے گی
بستر دیں گے اس پر آرام کرے گی،
پنکھا یا اے سی دیں گے اس سے ہوا لے گی، 
فریج دیں گے ٹھنڈا پانی پیے گی
چولہا دیں گے تو اس پر کھانا پکائے گی،
برتن دیں گے اس میں کھائے گی، جو کچھ آپ اپنی بیٹی کو دیں گے وہی اسے استعمال کرے گی ہم نے تو کام پر ہونا ہے۔

یہ سب سن کر بڑی حیرت ہوئی اور دل چاہا ایسے شخص کو جوتے لگائے جائیں پھر والدین کو بیٹی بیاہنے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر اسے بیاہ کر بھی اس کی کفالت اور سکون کی ذمہ داری والدین کے سر پر ہے یہ تو گویا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے والدین کرائے کے سانڈ کا بندوبست کر رہے ہوں (ناگواری کی صورت میں معذرت)۔۔۔۔
مطلب ایسے شخص کی غیرت کا کیا ہی معیار ہو سکتا ہے جو جہیز لینا یا ایسے معاملات کے لین دین پر بڑے فخر کا اظہار کرتا ہے۔

اکثر لوگ جہیز کی حمایت میں نبی کریم ﷺ کا اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما کو ضروریات زندگی کا کچھ سامان دینے سے جہیز کے اثبات میں دلیل دیتے ہیں۔
جو سراسر غلط ہے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب انتہائی مفلس آدمی تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدد کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا، جب وہ جوان ہوئے تو اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کر دیا، اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لئے ضروری سامان زندگی انہیں مہیا کر دیا گیا، اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مالی حالت بھی انتہائی کمزور تھی چونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے زیر کفالت تھے، اس لئے آپ نے مذکورہ سامان ایک نیا گھر آباد کرنے کے لئے دیا، اس کا رائج الوقت جہیز سے کوئی تعلق نہیں۔

اور دیکھا جائے تو جہیز کی آڑ میں درحقیقت بیٹیوں کو ان کے وراثت کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے، اگر اس فضول رسم پر لاکھوں روپے برباد کرنے کے بجائے بیٹیوں کو ان کا مکمل حق ادا کر دیا جائے تو یقینا یہی ان کے ساتھ بہترین بھلائی ہے۔ 

وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الذاریات)
اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی۔

Comments

Popular posts from this blog

#عید #عیدالاضحٰی #قربانی #یاددہانی

#رشتے #اعتراضات #ڈیمانڈ #جہیز قسط نمبر 2

"فیصلہ"