سوچیں

مجھے ذاتی طور پر لوگوں کے مسائل سن کر ان کا حل تلاش کرنا پسند ہے کم از کم خود کی حد تک جتنا بھی کر سکوں تو لازمی کرنے کی کوشش کرتا ہوں

مکالمہ
کدھر تھے؟
قبرستان گیا ہوا تھا
وہ کیوں؟
ابو سے ملنے کا دل کر رہا تھا
خیریت؟
اکثر ملنے چلا جاتا ہوں، جب دل اداس ہو یا جب کبھی آنکھیں چھلکنے کے در پہ ہوں، تو وہاں پرسکون ماحول میں دل کھول کر رو لیتا ہوں، کوئی تنگ کرنے والا بھی نہیں ہوتا اور دل بھی ہلکا ہو جاتا ہے
پھر؟
پھر یہ کہ وہاں سے واپسی پر دل سے کافی بوجھ اتار لینے کے بعد خود کو اگلی صبح پھر سے اس بےحس معاشرے کی تنقید، دھوکہ، گالیوں، طعنوں کو سننے کے لیے ان کے درمیان چلا جاتا ہوں
تھکتے نہیں ہو؟
نہیں تھکنا کیسا؟ اور اگر تھک بھی گیا تو کیا دل بھر جانے پر ریمووٹ سے ٹی وی آف کر دینے جیسے زندگی بھی ختم ہو جائے گی
نہیں نا؟ تو سہنا پڑے گا
کیا وجہ ہے کیوں اتنا ستائے ہوئے ہو لوگوں سے؟
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں دنیاوی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکایات سیل کی طرح خالق کائنات سے اس کی مخلوق کے بارے میں شکایات کا بھی اک سیل ہونا چاہیے تھا جہاں ہم خالق کو بتا سکتے کہ مالک تیرا فلاں بندہ اپنا فلاں کام دل جمعی سے ادا نہیں کر رہا، مالک تیرا فلاں بندہ حرام کھاتا ہے، مالک تیرا فلاں بندہ یتیموں کا حق کھاتا ہے
اور پھر مالک ان لوگوں کے خلاف فوری ایکشن لیتا
میں قبرستان اس لیے بھی جاتا ہوں کہ وہاں کی ٹوٹی پھوٹی قبریں مجھے تسکین دیتی ہیں یہ سوچ کر کے 
ان دنیا کے خداؤں اور بڑی بڑی اناؤں والوں کا ٹھکانہ بھی یہ چند فٹ کی قبر ہے
جہاں فیصلے اہل زمین کے سپرد نہیں ہوں گے
کوئی رشوت نہیں ہوگی
کوئی سفارش نہیں چلنے والی
کوئی مال نہیں کام آنے والا

جزا و سزا کا نظریہ مجھے ان زمینی خداؤں کو جھیلنے کی ہمت دیتا ہے
#اعوانیات

Comments

Popular posts from this blog

#عید #عیدالاضحٰی #قربانی #یاددہانی

#رشتے #اعتراضات #ڈیمانڈ #جہیز قسط نمبر 2

"فیصلہ"