#جہیز_نہیں_وراثت قسط نمبر 3
باپ کے انتقال کو ابھی کچھ ماہ ہی ہوئے تھے، دکھ تھا کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا، زندگی ہے کتنی ہی مشکل، کٹھن یا دشوار کیوں نہ ہو گزرانی پڑتی ہے، رویے دیکھنے پڑتے ہیں ضبط لانا پڑتا ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے
ننھیال ماں کے ساتھ اور ددھیال باپ کے ساتھ ہوتا ہے
ان کی زندگی میں یہ خوشنما چہرے، ان کے گزر جانے کے بعد امتحان بن جاتے ہیں
دونوں نہ رہیں تو رشتوں کی مضبوط کڑیاں بھی وقت کی الجھنوں کے ساتھ کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہیں
اور یتیمی کا دکھ تو ہوتا ہی ایسا ہے کہ اچھے اچھے رشتے دار بھی دامن چھڑا کر وقت سے سائیڈ پر ہو جاتے ہیں کہ کہیں کوئی ذمہ داری نہ اٹھانی پڑ جائے۔
دین یتیموں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے ان کی کفالت کا حکم دیتا ہے ان کی بہترین پرورش کی تلقین کرتا ہے جبکہ یہ نام نہاد مسلمان تو یتیموں کے لیے ان کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی کھانے میں لگ جاتے ہیں،،، ذمہ داری اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے۔
اب ماں کے سر پر بچوں کی پرورش کا بوجھ تھا، چاہتیں تو دوسری شادی کرتیں اور اپنی نئی زندگی آباد کر لیتیں، مگر بچوں کا کیا ہوتا؟ اس فکر سے خود کو آزاد نہ کر پائیں تو لاکھ مشوروں کے باوجود اس خیال کو رد کیا اور بچوں کی بہترین پرورش کے لیے دنیا کی سختیوں کو میں خود کو جٹا لیا، تعلیم یافتہ تھیں تو گھر ہی میں ٹیوشن سینٹر سے آغاز کیا، ضرورت مند ہوں اور اللہ پر توکل ہو تو اللہ بھی مشکل راستوں سے آسان رستے بنا دیتا ہے۔
ہاں بلکل، ویسے ہی جیسے موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اک ناممکن راستے کو آسان سا راستہ بنا دیا، لیکن یہ راستہ صرف انہیں متقین کے لیے تھا جنہوں نے موسی کے رب پر توکل کیا۔
والدین نے اپنی زندگی میں اک اچھا فیصلہ کیا تھا کہ بیٹی کو جہیز نہیں بلکہ اس کے لیے ایک زمین کا رقبہ لے رکھا تھا جس کی مالیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی، جہیز کا سامان ہوتا تو دربدر ہو رہا ہوتا، بیچنا پڑ جاتا، ٹوٹ جاتا، دیمک کھا جاتی، زنگ لگ جاتا،
سمجھداری وراثت سے تو نہیں ملتی البتہ خود سے اور دوسروں کی زندگیوں سے تجربات لے کر ان سے سیکھ لیتے ہوئے کیے گئے درست فیصلے ہی سمجھداری ہے۔
اولاد جوان ہے، بیٹیوں کی شادیاں اچھے خاندان میں کی جہیز کے نام پر ایک لاکھ روپے تک خرچ نہیں کیے، حتی کہ مالدار ہونے کے باوجود نکاح کے لیے ریاکاری پر سادگی کو ترجیح دی
سادگی سے رخصتی ہوئی اور ریاکاری سے بچی ہوئی رقم کو بیٹی کے اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کروا دیا۔
بیٹوں کی شادی کی تو جہیز یا رسموں کے نام پر ایک بھی سوٹ کا تبادلہ نہیں ہوا نہ ریاکاری ہوئی نہ ہی بڑھا چڑھا کر جھوٹ بولا گیا
سنت طریقے پر نکاح ہوا، اور فضول رسومات سے بچی ہوئی رقم سے عمرے پر چلے گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے غیر شرعی رسومات کی غلامی کرنا اور پھر خیر و برکت کی توقع رکھنا کس قدر حماقت ہے۔
اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یہاں نقل کرنا ضروری سمجھوں گا، جو ہر ذی شعور کو ذہن نشین کرنی چاہیے
کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین نکاح آخر کس کو کہا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً."
"سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ ہو۔"
( مسند احمد(6/82۔145)ابن ابی شیبہ(4/189) حاکم(2/178) بزار فی کشف الاستار (2/158) مسند شھاب(1/105)
اس معنی کی ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
"خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ "
"بہترین نکاح وہ ہے جو(مہر کے لحاظ سے) آسان ہو۔"( صحیح ۔صحیح ابوداود(1859) کتاب النکاح باب فیمن تزوج ولم یسم صداقا حتی مات،ارواء الغلیل (1924) ابو داود(2117) السلسلۃ الصحیحہ(1842) صحیح الجامع الصغیر(3300)
Comments
Post a Comment