#گناہ_اور_ہم
گناہ اور ہم
تحریر: ملک فیصل اعوان
سوال تھا کہ کیا آپ بھی گناہ پر ندامت کے بجائے "فخر" محسوس کرتے ہیں
کسی گناہ کا مرتکب ہونا "باعث فخر" کیسے ہو سکتا ہے؟
توجہ درکار ہے!
دوست احباب کی جانب سے مختلف قسم کے جوابات موصول ہوئے لیکن دل مطمئن نہ ہو پایا یا یوں کہوں کہ جو جواب میں اپنے سوال پر طے کر چکا تھا اس کے موافق نہ تھا بہرحال____
یوا کچھ یوں کہ اک عرصہ سے حلقہ احباب جوں جوں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے تو بہت سی باتوں کو جاننے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے
میرا یہ ماننا ہے ہر نئے دن ملنے والے کسی شخص سے کچھ سیکھ لیا جائے یا سکھا دیا جائے
اسی سلسلے میں اک نشست میں کچھ دوستوں کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ بات چلتے چلتے اک ایسے موضوع پر آن پہنچی
جس کی بدولت اوپر سوال کی نوبت آئی
اس سوال کے نتیجے میں اک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے
ایسا شخص جو اللہ کی متعین کردہ حد کو توڑتا ہے، اور پھر جبکہ خالق حقیقی نے اس کے گناہ یا عیب کی پردہ پوشی کی باوجود اس کے وہ اپنے گناہ کا اعلان کرتا ہے اور فخر سے بتاتا ہے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے اور گناہ پر فخر محسوس کرتا ہے اور گناہ پر اچھا گمان کرتا ہے، کیا ایسا شخص "کفر مخرج عن الملة" ہے؟
بات اتنی سیدھی بھی نہیں کہ جسے نظر انداز کر دیا جائے آج ہم ان ان جانے گناہوں میں حد تک دھنس چکے ہیں
اور مر جانے کا مقام تو یہ ہے ہمیں اس بات کا احساس تک بھی نہیں
آج ہم بہت سے گناہ کرتے ہیں اور برملا اظہار بھی کرتے ہیں
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کبیرہ گناہ اور معاصی کا اعلان کرنا ایک ایسا گناہ ہے جو کہ ڈبل گناہ کا درجہ رکھتا ہے، اور بعض اوقات اس کے کرنے والے کو کفر تک بھی لے جاتا ہے جب کہ اس کے فعل پر فخر اور اس کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اعلان کرے، اور اس حکم میں صغیرہ اور کبیرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
(میری ساری امت سے درگزر کر دیا گیا ہے سوائے اعلانیہ اور ظاہر کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ رات کو ایک شخص کوئی عمل کرے اور صبح کے وقت وہ یہ کہتا پھرے میں نے رات کو یہ یہ کام کیا حالانکہ اللہ تعالی نے رات بھر اس کی پردہ پوشی کی تو صبح کو وہ اللہ تعالی کی اس پردہ پوشی کو ختم کرتا پھرے)
(بخاری و مسلم)
شیخ ابن عثیمن رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ
ایک تیسری قسم سرکش اور بے حیا کی ہے، جو کہ فخر کرتے ہوئے زنی کیا باتیں کرتا پھرتا ہے اللہ تعالی کی اس سے پناہ
یہ کہتا ہے کہ اس نے اس ملک کا سفر کیا اور اس ملک کا سفر کیا اور فسق و فجور اور کئی عورتوں سے زنا کیا
اور اس طرح کی باتیں اور ان پر فخر کرتا پھرتا ہے۔
تو ایسے شخص کے متعلق یہ ہے کہ اسے توبہ کا کہا جائے گا اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے کیونکہ جو زنا کرنے پر فخر کرتا ہے تو اس کی حالت اس بات کی متقاضي ہے کہ وہ زنا حلال سمجھتا ہے۔
اور اللہ تعالی کی پناہ
تو جو زنا کو حلال سمجھے وہ کافر ہے۔
شرح ریاض الصالحین (1/ 116)
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معاصی کے بھی درجے ہیں اور گناہ کرنے والے کی معصیت کے وقت اور معصیت کے بعد کی حالت کے اعتبار سے گناہ میں بھی کمی اور اضافہ ہوتا ہے، تو چھپ کر معصیت کرنے والا اعلانیہ معصیت کرنے والے کی طرح نہیں، اور اسی طرح معصیت کرنے کے بعد نادم ہونے والا معصیت پر فخر کرنے والے کی طرح نہیں ہے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
اجمالی طور پر فحاشی فساد کے اعتبار سے مختلف مراتب رکھتی ہے، تو عورتوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے والا مرد اور مرد کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے والی عورت کا شر زنا اور بدکاری کرنے والے مرد اور عورت سے کم ہے، اور اسی طرح چوری چھپے معصیت کا ارتکاب کرنے والا اعلانیہ معصیت کرنے والے سے کم گناہ رکھتا ہے، اور چھپا کر کرنے والا لوگوں کو معصیت کر کے خبریں بتانے سے کم گناہ رکھتا ہے، اور یہ اللہ تعالی کے عفو درگزر سے دور ہے
جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
(میری ساری امت سے درگزر کیا گیا ہے لیکن اعلانیہ طور پر معصیت کرنے والوں کو نہیں)
اغاثۃ اللہفان (2 / 147)
اور خدن اور خدنۃ کا معنی عاشق اور عشق کرنے والی عورت ہے۔
اور اصل بات تو یہ ہے کہ مسلمان گناہ کے بعد اپنے گناہ سے توبہ و استغفار اور ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ اس کا عزم کرے کہ وہ یہ کام دوبارہ نہیں کرے گا، اور نہ ہی اس کے بعد اس گناہ اور معصیت پر فخر کرے گا اور نہ ہی اس کی لوگوں میں بات اور اعلان ہی کرے گا۔
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(مومن شخص جب کوئی گناہ اور معصیت کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے، اگر تو وہ اس معصیت سے توبہ کرتا اور اسے چھوڑ دیتا اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے، اور اگر وہ معصیت اور زیادہ کرتا ہے تو یہ نکتے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں حتی کہ سارا دل بھر جاتا ہے، اور یہی وہ ران (زنگ) ہے جس کا اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے))۔
مسند احمد (8792) سنن ترمذی (3334) شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں حسن کہا ہے (2654)۔
اللہ رب العالمین!
ہمیں صحیح معنوں میں دین قیم (یعنی سچا اور درست دین) پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
#اعوانیات
Comments
Post a Comment